ہندوستانی تاریخ کی ایک ایسی مشعل راہ ہیں جنہیں اکثر تاریخ کے صفحات میں وہ مقام نہیں مل سکا جس کی وہ حقدار تھیں – فاطمہ شیخ۔ 19ویں صدی کے قدامت پسند دور میں، جب خواتین اور دلتوں کے لیے تعلیم ایک خواب سے زیادہ کچھ نہیں تھی، تب فاطمہ شیخ نے جیوتیبا پھلے اور ساوتری بائی پھلے کے ساتھ مل کر اس خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ انہیں بھارت کی پہلی مسلم خاتون استاد اور ایک عظیم سماجی مصلح (Social Reformer) کے طور پر جانا جاتا ہے۔
دلت مسلم اتحاد کی علامت: فاطمہ شیخ کی تعلیمی میدان میں عظیم شراکت
پیدائش اور ابتدائی زندگی
فاطمہ شیخ 9 جنوری 1831 کو مہاراشٹر کے پونے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے بھائی کا نام عثمان شیخ تھا جو جیوتیبا پھلے کے دوست تھے۔ فاطمہ شیخ کے انتقال کے بارے میں مستند معلومات کم ہیں، لیکن بعض ذرائع کے مطابق ان کی وفات اکتوبر 1900 کے آس پاس ہوئی۔
ایسے وقت میں جب معاشرے میں ذات پات کا امتیاز اور صنفی عدم مساوات عروج پر تھی، فاطمہ شیخ نے اپنے بھائی عثمان شیخ کے ساتھ مل کر سماجی اصلاح کا راستہ چنا۔

تعلیم اور استاد بننے کا سفر
تعلیمی شعبے میں فاطمہ شیخ کا کردار لاجواب ہے۔ انہوں نے ساوتری بائی پھلے کے ساتھ مل کر احمد نگر کے ایک مشنری سکول میں استاد کی تربیت (Teachers Training) حاصل کی۔ یہ ان کے تعلیم کے لیے غیر متزلزل لگن کو ظاہر کرتا ہے۔ اس تربیت نے انہیں اس دور کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی اور تربیت یافتہ خواتین کی صف میں لا کھڑا کیا۔
1848 میں، جب دلت اور پسماندہ ذات کی لڑکیوں کو پڑھانے کی وجہ سے جیوتیبا پھلے اور ساوتری بائی پھلے کو پھلے خاندان سے بے دخل کر دیا گیا تھا، تب عثمان شیخ نے انہیں اپنے پونے میں واقع گھر میں پناہ دی۔ اسی گھر میں، 1848 میں، بھارت میں لڑکیوں کے لیے پہلا سکول ‘سودیشی لائبریری’ (Native Female School) کھولا گیا۔ فاطمہ شیخ نے ساوتری بائی پھلے کے ساتھ اس سکول میں پڑھانا شروع کیا اور اس طرح وہ بھارت کی پہلی مسلم خاتون استاد بنیں۔
تدریسی کام کی توسیع
فاطمہ شیخ کا تعاون صرف ایک سکول تک محدود نہیں رہا۔
- متعدد سکولوں میں تدریس: وہ جیوتیبا پھلے کی طرف سے پونے اور اس کے آس پاس کھولے گئے تمام پانچوں سکولوں میں ساوتری بائی پھلے کے ساتھ پڑھاتی تھیں۔
- اپنا سکول: انہوں نے 1851 میں ممبئی (اُس وقت کا بمبئی) میں بھی لڑکیوں کے لیے دو سکول قائم کیے، جس سے ان کے تعلیمی مشن میں توسیع ہوئی۔
- "فل ٹائم ٹیچر”: کچھ مؤرخین کے مطابق، ساوتری بائی پھلے تدریس کے ساتھ تحریری کام بھی کرتی تھیں، جبکہ فاطمہ شیخ بنیادی طور پر ایک ‘مکمل وقت کی استاد’ (Full-Time Teacher) تھیں، جنہوں نے اپنا سارا وقت پڑھانے کے لیے وقف کر دیا۔
عظیم جدوجہد اور چیلنجز
فاطمہ شیخ کا راستہ کبھی آسان نہیں تھا۔ ان کے اور پھلے دَمپَتی (جوڑے) کے سماجی اصلاحی کاموں کی اُس وقت کے قدامت پسند سماج نے شدید مخالفت کی۔
- سماجی بائیکاٹ: فاطمہ شیخ کو ان کے ترقی پسند خیالات اور تعلیم کی ترویج کی وجہ سے سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔
- روزانہ کی ایذا رسانی: جب فاطمہ اور ساوتری بائی سکول جاتیں تھیں، تو لوگ ان پر پتھر، گوبر اور کچرا پھینکتے تھے، کیونکہ خواتین کا پڑھنا اور پڑھانا اُس وقت ناقابلِ تصور سمجھا جاتا تھا۔
- قدامت پسندی سے لڑائی: ایک مسلم خاتون ہونے کے ناطے، انہیں نہ صرف خواتین کی تعلیم کے لیے، بلکہ اپنی کمیونٹی کی قدامت پسندی سے بھی لڑنا پڑا۔ انہوں نے دلت اور مسلم بچوں کو ایک ساتھ تعلیم دینے کی ہمت کی، جو اُس دور میں ایک انقلابی قدم تھا۔
ان سب چیلنجز کے باوجود، فاطمہ شیخ نے اپنا حوصلہ نہیں کھویا اور مضبوطی سے اپنے مشن پر ڈٹی رہیں۔
پھلے جوڑے کی حمایت اور پناہ
فاطمہ شیخ کی زندگی کا سب سے بڑا اور جرات مندانہ تعاون یہ تھا کہ انہوں نے اور ان کے بھائی عثمان شیخ نے جیوتیبا پھلے اور ساوتری بائی پھلے کو اُس وقت سہارا دیا، جب ان کے اپنے خاندان نے انہیں گھر سے نکال دیا تھا۔
- نڈرتا کا ثبوت: فاطمہ شیخ کا یہ اقدام ان کی غیر معمولی جرات کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک مسلم گھرانے میں رہتے ہوئے، ایسے وقت میں ایک ہندو دلت جوڑے کو پناہ دینا اور ان کے تعلیمی مشن میں شراکت دار بننا، اُس وقت کے معاشرے میں ایک انقلابی اور اتحاد کا کام تھا۔
ادب اور تاریخ میں تذکرہ
فاطمہ شیخ کے بارے میں بہت کم بنیادی معلومات دستیاب ہونے کے باوجود، ان کا ذکر اہم تاریخی دستاویزات میں ملتا ہے:
- ساوتری بائی پھلے کے خطوط: ساوتری بائی پھلے نے 1856 میں مہاتما پھلے کو لکھے اپنے ایک خط میں ‘فاطمہ’ کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے فاطمہ شیخ کی بغیر تھکے سکول کا کام سنبھالنے کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ، "فاطمہ کو تکلیف ہوتی ہو گی، لیکن وہ کبھی شکایت نہیں کرتیں۔” یہ خط ان کے گہرے تعاون اور فاطمہ کی محنت کا ثبوت ہے۔
- آندھرا پردیش حکومت کا تعاون: فاطمہ شیخ کے تاریخی کردار کو تسلیم کرتے ہوئے، آندھرا پردیش حکومت نے ان کی سوانح عمری اور سماجی اصلاح کے کاموں پر ایک سبق کو اپنی آٹھویں جماعت کے نصاب میں شامل کیا ہے۔
سماجی مصلح کے طور پر کردار
فاطمہ شیخ کی زندگی صرف ایک استاد تک محدود نہیں تھی؛ وہ ایک فعال سماجی مصلح تھیں۔
- تعلیم کا فروغ: انہوں نے ‘ستیہ شودھک سماج’ کے مقاصد کو آگے بڑھایا، جس کا بنیادی مقصد حاشیے پر کھڑے لوگوں کو تعلیم کا مساوی موقع دینا تھا۔ انہوں نے دلتوں اور اقلیتی طبقے کے گھر گھر جا کر انہیں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کی ترغیب دی۔
- مساوات کے لیے کام: فاطمہ شیخ نے صرف لڑکیوں کو ہی نہیں، بلکہ دبے کچلے، اور شودر سمجھے جانے والے بچوں کو بھی تعلیم دی، جس سے سماجی مساوات کی بنیاد مضبوط ہوئی۔
- ساوتری بائی پھلے کا سہارا: وہ ساوتری بائی پھلے کی ایک مضبوط معاون تھیں۔ جب ساوتری بائی بیمار ہوتی تھیں، تو فاطمہ شیخ اکیلے پورے سکول کا انتظام سنبھالتی تھیں۔ ان کی غیر متزلزل حمایت کے بغیر پھلے دَمپَتی کا تعلیمی مشن کامیاب نہیں ہو سکتا تھا۔
فاطمہ شیخ نے اپنے کاموں سے یہ ثابت کیا کہ تعلیم اور سماجی تبدیلی کے لیے دھرم سے بالا تر ہو کر کام کرنا کتنا ضروری ہے۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سماجی انصاف اور مساوات کے لیے کی گئی جدوجہد کبھی بے کار نہیں جاتی، بھلے ہی تاریخ انہیں فوراً یاد نہ کرے۔ ان کا کردار آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنا رہے گا۔
‘گوگل ڈوڈل’ کے ذریعے اعزاز
جدید دور میں، فاطمہ شیخ کے کردار کو عالمی سطح پر شناخت ملی۔ ان کی 191ویں یومِ پیدائش (9 جنوری، 2022) پر، گوگل (Google) نے انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ایک خصوصی ‘گوگل ڈوڈل’ شائع کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے کام اور وراثت کی اہمیت آج بھی قائم ہے۔
فاطمہ شیخ ایک حقیقی منبعِ الہام (Inspiration) ہیں جنہوں نے اپنے کام سے یہ دکھایا کہ تعلیم اور سماجی انصاف کے لیے کیا گیا کام کسی مذہب یا ذات کی حدود سے پرے ہوتا ہے۔
نتیجہ: فاطمہ شیخ کی لافانی وراثت
فاطمہ شیخ کی زندگی ایک عام مسلم خاتون سے اٹھ کر ایک غیر معمولی سماجی مصلح بننے کی کہانی ہے۔ ان کا کردار صرف بھارت کی پہلی مسلم خاتون استاد کے طور پر پہچانا جانا کافی نہیں ہے؛ وہ ساوتری بائی پھلے کے تعلیمی مشن کی روح (Soul) تھیں۔
19ویں صدی کے قدامت پسند اور ذات پات والے سماج میں، فاطمہ شیخ نے تین بڑی رکاوٹوں کو توڑنے کی ہمت کی:
- صنفی رکاوٹ (Gender Barrier): ایک خاتون کا گھر سے نکل کر تعلیم دینا۔
- مذہبی رکاوٹ (Religious Barrier): ایک مسلم خاتون کا دلت اور پسماندہ ذات کی لڑکیوں کو پڑھانا۔
- سماجی رکاوٹ (Social Barrier): پھلے جوڑے کو پناہ دے کر سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا۔
فاطمہ شیخ ہمیں سکھاتی ہیں کہ حقیقی ترقی تب ہوتی ہے جب مظلوم اور محروم طبقے کے لوگ تعلیم اور مساوات کے لیے متحد ہوتے ہیں۔ ان کے بھائی عثمان شیخ کا اپنے گھر کو بھارت کے پہلے لڑکیوں کے سکول میں تبدیل کرنا، اور فاطمہ کا مخالفت سہہ کر بھی ڈٹے رہنا، سماجی ہم آہنگی اور بے لوث خدمت کی بہترین مثال ہے۔
آج جب ہم خواتین کو با اختیار بنانے اور جامع تعلیم (Inclusive Education) کی بات کرتے ہیں، تو فاطمہ شیخ کا نام تاریخ کے صفحات سے نکل کر ہر شہری کے لیے ایک تحریک بن جاتا ہے۔ ان کی وراثت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سماجی اصلاح کے لیے علم کی شمع جلانا سب سے بڑی کرانتی ہے۔
فاطمہ شیخ: ایک لافانی وراثت اور تحریک (تحقیقی مواد)
انقلاب کی روح فاطمہ شیخ کے بارے میں مزید اور گہرائی سے پڑھنے کے لیے، آپ کو بنیادی طور پر دلت-بہوجن ادب اور تحقیقی مقالوں (Research Papers) پر انحصار کرنا پڑے گا، کیونکہ مرکزی دھارے کی تاریخ نگاری میں ان کے بارے میں کم لکھا گیا ہے۔
یہاں کچھ اہم ذرائع اور کتابیں دی گئی ہیں:
1. کتب
فاطمہ شیخ پر خاص طور پر مرکوز کچھ کتابیں (جو عام طور پر ہندی اور مراٹھی میں دستیاب ہیں) درج ذیل ہیں:
| کتاب کا نام (Hindi/English) | مصنف (Author) | زبان | اہمیت (Importance) |
| The First Muslim Women Teacher of Modern India: Fatima Sheikh | سید نذیر احمد (Syed Nasheer Ahmad) | انگریزی/ہندی تراجم دستیاب ہو سکتے ہیں۔ | یہ فاطمہ شیخ پر لکھی گئی چند ابتدائی اور اہم کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس میں ان کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر تحقیق پر مبنی معلومات دی گئی ہیں۔ |
| بھارت کی پہلی مسلم خاتون استاد – کرانتی کاری فاطمہ شیخ | موہن داس نائمیشرائی (Mohandas Naimishrai) | ہندی | یہ کتاب ان کی جدوجہد اور انقلاب میں ان کے کردار کو بیان کرتی ہے۔ |
| کہانی فاطمہ شیخ کی (بھارت کی پہلی مسلم معلمہ) | انیل گج بھیے (Anil Gajbhiye) | ہندی | یہ ان کی سوانح عمری کو کہانی کی شکل میں پیش کرتی ہے، جو پڑھنے میں آسان ہوتی ہے۔ |
2. تحقیق اور تعلیمی ذرائع
فاطمہ شیخ کے بارے میں سب سے قابل اعتماد معلومات آپ کو ان بڑے کاموں کے اندر ان کے حوالے میں ملے گی:
- ساوتری بائی پھلے اور جیوتی راؤ پھلے کا ‘سَمَگر ونگمے’ (Collected Works): پھلے دَمپَتی کے خطوط اور تحریروں میں فاطمہ شیخ کا ذکر ملتا ہے، جو ان کے وجود اور کردار کا سب سے مضبوط تاریخی ثبوت ہے۔ اہم: خاص طور پر ساوتری بائی پھلے کے وہ خطوط جن میں انہوں نے فاطمہ شیخ کا ذکر کیا ہے۔
- Women Writing in India: 600 B.C. to the Early Twentieth Century (Volume I) | ترتیب: سوسی تھارو اور کے للیتا: اس انتھولوجی (انتخاب) میں فاطمہ شیخ کا تذکرہ ہے اور یہ ان کے وجود کو ثابت کرنے والے ابتدائی تعلیمی ذرائع میں سے ایک ہے۔
- تحقیقی جرائد (Research Journals): Journal of Historical Studies and Research جیسے تعلیمی جرائد میں وقتاً فوقتاً ان کی زندگی اور کام پر تحقیقی مقالے شائع ہوتے رہے ہیں۔ "India’s Oft-Forgotten Feminist Icon Fatima Sheikh” جیسے مضامین تلاش کیے جا سکتے ہیں۔
3. آن لائن اور سرکاری ذرائع
- وکی پیڈیا (Wikipedia): فاطمہ شیخ کا وکی پیڈیا صفحہ ان کی زندگی سے جڑے تعلیمی اقتباسات اور حوالوں کا ایک اچھا مجموعہ ہے۔
- آندھرا پردیش سرکاری درسی کتب: آندھرا پردیش حکومت نے ان کے تعاون کو عزت دیتے ہوئے اپنی درسی کتب میں ان کے بارے میں ایک سبق شامل کیا ہے۔ ان اسباق سے سادہ اور درست معلومات مل سکتی ہیں۔
- ‘دی وائر’ (The Wire) اور ‘دی پرنٹ’ (ThePrint) جیسے باوقار میڈیا پورٹلز کے تحقیقی مضامین: فاطمہ شیخ کے تاریخی وجود پر حالیہ تنازعہ کی وجہ سے، ان پورٹلز نے کئی گہرائی سے لکھے گئے تحقیقی مضامین شائع کیے ہیں جو تاریخی شواہد (خطوط، تصاویر) پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔
اگر آپ گہرائی سے مطالعہ کرنا چاہتے ہیں، تو سید نذیر احمد کی کتاب اور پھلے دَمپَتی کے مجموعی ادب میں فاطمہ شیخ سے متعلق اصل حوالوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔


